ورنہ ویسے تو کسی سے بھی بگڑ سکتا ہوں
سامنے تو ہے بھلا تجھ سے بھی لڑ سکتا ہوں
میرا پھیلاؤ ہے مشروط جگہ سے ورنہ
وقت پڑ جانے پہ اتنا ہی سکڑ سکتا ہوں
میں نے اک بار اسے ہاتھ لگا کر دیکھا
پھر یقیں آیا کہ خوشبو کو پکڑ سکتا ہوں
تجھ سے ناراض ہوا بھی تو کوئی بات نہیں
میں تو وہ ہوں کہ جو خود سے بھی جھگڑ سکتا ہوں
خیر و برکت کا سمجھ کر نہ گلے ڈال مجھے
سوچ لے میں تجھے الٹا بھی تو پڑ سکتا ہوں
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment