Tuesday, 18 April 2023

بات ایسی ہے کہ اعصاب کو لے بیٹھی ہے

 بات ایسی ہے کہ اعصاب کو لے بیٹھی ہے

ایک مچھلی میرے تالاب کو لے بیٹھی ہے

آنکھ جس کے لیے ہلکان ہوئی جاتی تھی

وہی تعبیر مِرے خواب کو لے بیٹھی ہے

سوچتا ہوں کہ مِرے دوست تِری سبز دعا

کس طرح قریۂ شاداب کو لے بیٹھی ہے

ایک کھڑکی جو کبھی رات گئے کُھلتی تھی

مسکراتے ہوئے مہتاب کو لے بیٹھی ہے

اب کسی شخص کی عزت نہیں ہوتی مجھ سے

فاقہ مستی ادب آداب کو لے بیٹھی ہے

جتنی شدت سے بھلانے میں لگا تھا تجھ کو

یہی کوشش دلِ بے تاب کو لے بیٹھی ہے

اس محبت پہ پڑے قہر خدا کا ساحر

یہ مِرے حلقۂ احباب کو لے بیٹھی ہے


جہانزیب ساحر

No comments:

Post a Comment