بات ایسی ہے کہ اعصاب کو لے بیٹھی ہے
ایک مچھلی میرے تالاب کو لے بیٹھی ہے
آنکھ جس کے لیے ہلکان ہوئی جاتی تھی
وہی تعبیر مِرے خواب کو لے بیٹھی ہے
سوچتا ہوں کہ مِرے دوست تِری سبز دعا
کس طرح قریۂ شاداب کو لے بیٹھی ہے
ایک کھڑکی جو کبھی رات گئے کُھلتی تھی
مسکراتے ہوئے مہتاب کو لے بیٹھی ہے
اب کسی شخص کی عزت نہیں ہوتی مجھ سے
فاقہ مستی ادب آداب کو لے بیٹھی ہے
جتنی شدت سے بھلانے میں لگا تھا تجھ کو
یہی کوشش دلِ بے تاب کو لے بیٹھی ہے
اس محبت پہ پڑے قہر خدا کا ساحر
یہ مِرے حلقۂ احباب کو لے بیٹھی ہے
جہانزیب ساحر
No comments:
Post a Comment