Wednesday, 19 April 2023

نوحۂ ہجرت؛ ہجرت بھی عجب اب کہ مکینوں سے ہوئی ہے

 نوحۂ ہجرت


ہجرت بھی عجب اب کہ مکینوں سے ہوئی ہے

جس شہر میں رہتے تھے وہی شہر ہے اب تک

جس گھر میں بسیرا تھا، وہی اب ہے ٹھکانہ

جس چھت کی دعا مانگتے رہتے تھے سبھی لوگ

اب تک ہے سروں پر اسی چھتنار کا سایہ

پھر بھی کوئی ہجرت ہے کہ چہروں پہ سجی ہے

ہر آنکھ میں گھر لوٹ کے جانے کی پڑی ہے

کل گھر جسے کہتے تھے، پڑاؤ ہے کوئی اب

اک چھت جو اماں دیتی تھی اب خوف نشاں ہے

یاروں کا ٹھکانہ نہیں ملتا ہے کسی کو

باتیں سبھی اغیار کی یاروں کی زباں ہیں

آنکھیں سبی اپنوں کی مگر شعلہ فشاں ہیں

دل یوں تو دھڑکتے ہیں، سناتے نہیں دیتے

اس شہر کو اب اشک دکھائی نہیں دیتے

اک قافلۂ دربدراں اپنے ہی گھر میں

ہجرت کا سماں چاروں طرف خوف نگر میں

بے گھر ہیں غریب الوطنی سب پہ پڑی ہے

بے سمت مسافت کی گھڑی آن کھڑی ہے

چہرے کہیں اپنوں کے دکھائی نہیں دیتے

دیوار و در اپنے تھے، سُجھائی نہیں دیتے

کیا لوگ ہیں اس دُکھ کی دُہائی نہیں دیتے


اوریا مقبول جان

No comments:

Post a Comment