Thursday, 20 April 2023

ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں

 ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں

مگر اس کے کرم کے سلسلے دنیا پہ جاری ہیں

کریں یہ سیر کاروں میں کہ اڑ لیں یہ جہازوں میں

فرشتہ موت کا کہتا ہے یہ میری سواری ہیں

نہ ان کے قول ہی سچے نہ ان کے تول ہی سچے

یہ کیسے دیش کے تاجر ہیں کیسے بیوپاری ہیں

ہماری مفلسی آوارگی پہ تم کو حیرت کیوں

ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سوغاتیں تمہاری ہیں

نسب کے خون کے رشتے ہوں یا پینے پلانے کے

کلائی پر بندھے دھاگے کے رشتے سب پہ بھاری ہیں

یہ اپنی بے بسی ہے یا کہ اپنی بے حسی یارو

ہے اپنا ہاتھ ان کے سامنے جو خود بھکاری ہیں

ہمیں بھی دیکھ لے دنیا کی رونق دیکھنے والے

تری آنکھوں میں جو آنکھیں ہیں وہ آنکھیں ہماری ہیں

عزیز ناتواں کے سامنے کُہسار غم ہلکا

مگر احسان کے تنکے ازل سے ان پہ بھاری ہیں


عزیز انصاری

No comments:

Post a Comment