اپنی چمڑی سے بنی پاپوش پہنائی اسے
پھر نہ جانے کیا ہوا عزت نہ راس آئی اسے
جا نہیں سکتا کوئی اِس گنبدِ بے سمت سے
خاک پر مارے گا شوقِ عرش پیمائی اسے
میری آنکھوں میں اُبلتے قلزمِ خوں رنگ کی
دور سے کیسے نظر آئے گی گہرائی اسے
پوچھ کر تو آ کہ کیا کہتا ہے قیسِ خستہ دل
تاج سے بڑھ کر ہو شاید طوقِ رسوائی اسے
کیا کرے گا دان میں آنکھیں کہ ان کے خواب بھی
ہو گئے زندہ اگر ملتے ہی بینائی اسے
آئینے کو دادِ تابِ حسن، ورنہ دیکھتا
راکھ کر دیتی کسی کی جلوہ آرائی اسے
یہ بتا راحت کہ تیرے پاس کیا رہ جائے گا
آخری تحفے میں دے کر اپنی تنہائی اسے
راحت سرحدی
No comments:
Post a Comment