Tuesday, 18 April 2023

اپنی چمڑی سے بنی پاپوش پہنائی اسے

 اپنی چمڑی سے بنی پاپوش پہنائی اسے

پھر نہ جانے کیا ہوا عزت نہ راس آئی اسے

جا نہیں سکتا کوئی اِس گنبدِ بے سمت سے

خاک پر مارے گا شوقِ عرش پیمائی اسے

میری آنکھوں میں اُبلتے قلزمِ خوں رنگ کی

دور سے کیسے نظر آئے گی گہرائی اسے

پوچھ کر تو آ کہ کیا کہتا ہے قیسِ خستہ دل

تاج سے بڑھ کر ہو شاید طوقِ رسوائی اسے

کیا کرے گا دان میں آنکھیں کہ ان کے خواب بھی

ہو گئے زندہ اگر ملتے ہی بینائی اسے

آئینے کو دادِ تابِ حسن، ورنہ دیکھتا

راکھ کر دیتی کسی کی جلوہ آرائی اسے

یہ بتا راحت کہ تیرے پاس کیا رہ جائے گا

آخری تحفے میں دے کر اپنی تنہائی اسے


راحت سرحدی

No comments:

Post a Comment