Tuesday, 18 April 2023

ہے عجب شغل مرا رات کے ڈھل جانے تک

 ہے عجب شغل مِرا رات کے ڈھل جانے تک

دیکھتا رہتا ہوں تارا کوئی جل جانے تک

پھر سلا دے گا اسے بحر کا اک گہرا سکوت

مستی ہے موج میں ساحل پہ مچل جانے تک

کیا ہوا اس کی گرہ میں ہے اگر اک دوری

میں بھی تو اس کا ہوں بس اس کے بدل جانے تک

پھر وہی میں مِرا پھر ہو گا وہی کار جہاں

بات ساری ہے کسی غم کے بہل جانے تک

وہ ضرورت سے زیادہ ہی فراغت تھی کہ میں

جس میں پھرتا رہا حسرت کے نکل جانے تک

میرا اک عذر وہ سنتا رہا خاموشی سے

اور میں بیٹھا رہا برف پگھل جانے تک

روک رکھنی ہے کہیں ایک جگہ درد کی رات

کسی بیمار کی حالت کے سنبھل جانے تک

رزق مٹی کا مِرا خوں نہیں بننے والا

صبح کے چہرے پہ غازہ کوئی مل جانے تک

عین ممکن ہے ٹھہر جائے کہیں آج کا دن

اور یہ ٹھہرا ہی رہے یوں تِرے کل جانے تک

ایک آتش ہے کہ دہکائے ہوئے رکھتی ہے

کسی زنجیر کے حلقوں کے پگھل جانے تک

میں بھی شاہیں اسے ملنے نہیں جانے والا

اس کے اندر سے کسی بل کے نکل جانے تک


جاوید شاہین

No comments:

Post a Comment