جدائی پیاس بھڑکانے لگی ہے
محبت خواب دکھلانے لگی ہے
کہیں مرگِ وفا کی بُو اڑی تو
فضا میں چیل منڈلانے لگی ہے
دلِ بے تاب میں ہلچل مچی ہے
نظر میں شام اٹھلانے لگی ہے
ہوئی کیسے مسلسل بارشِ غم
قیامت عاشقی ڈھانے لگی ہے
بُجهی جاتی ہے نارِ عاشقانہ
طبیعت خاک پر آنے لگی ہے
نجانے کن ہواؤں میں ہے عالی
سنا ہے عشق فرمانے لگی ہے
شائستہ کنول عالی
No comments:
Post a Comment