Monday, 17 April 2023

جدائی پیاس بھڑکانے لگی ہے

 جدائی پیاس بھڑکانے لگی ہے

محبت خواب دکھلانے لگی ہے

کہیں مرگِ وفا کی بُو اڑی تو

فضا میں چیل منڈلانے لگی ہے

دلِ بے تاب میں ہلچل مچی ہے

نظر میں شام اٹھلانے لگی ہے

ہوئی کیسے مسلسل بارشِ غم

قیامت عاشقی ڈھانے لگی ہے

بُجهی جاتی ہے نارِ عاشقانہ

طبیعت خاک پر آنے لگی ہے

نجانے کن ہواؤں میں ہے عالی

سنا ہے عشق فرمانے لگی ہے


شائستہ کنول عالی

No comments:

Post a Comment