موجِ گل، برگِ حنا، آبِ رواں کچھ بھی نہیں
اس جہانِ رنگ و بُو میں جاوِداں کچھ بھی نہیں
پھر وہی ذوقِ تعلق، پھر وہی کارِ جنوں
سر میں سودا ہے تو آشوبِ جہاں کچھ بھی نہیں
اک سمندر کتنا گہرا میرے پس منظر میں ہے
سامنے لیکن زمین و آسماں کچھ بھی نہیں
دھوپ کی چادر بھی مِل جائے تو کافی ہے بہت
کچے پکے موسموں کا سائباں کچھ بھی نہیں
صبح کی دہلیز پر سوتے ہیں اب بھی قافلے
وقت کے صحرا میں آوازِ اذاں کچھ بھی نہیں
موم ہو جاتے ہیں پتھر نرمیٔ گفتار سے
یوں تو کہنے کو مِری طبع رواں کچھ بھی نہیں
دیکھیے کب برف پگھلے، کب چلے بادِ سحر
وہ تو اب تک مہرباں نامہرباں کچھ بھی نہیں
ان کو شاید اب بھی پتھر کے زمانے یاد ہیں
جو یہ کہتے ہیں کہ پھولوں کی زباں کچھ بھی نہیں
شوخیٔ تقریر نامی سے غلط فہمی نہ ہو
سچ تو یہ ہے میرے اس کے درمیاں کچھ بھی نہیں
نامی انصاری
No comments:
Post a Comment