کیوں چلے آتے ہیں دلدار منانے مجھ کو
پاؤں آتے نہیں پانی پہ جمانے مجھ کو
ہر اک نعمت سے نوازا ہے خدا نے مجھ کو
تھام رکھا ہے کسی دستِ دعا نے مجھ کو
میں سخن میں تو کوئی کارِ نمایاں کر لوں
میں طلبگار ہوں، دے اپنے خزانے مجھ کو
جانتے ہیں جو مجھے بھُول نہیں سکتے کبھی
وہ بھی ملتے ہیں یہاں کر کے بہانے مجھ کو
انہیں جب یاد کروں دل کو خوشی ہوتی ہے
جینے کے آتے ہیں خوب بہانے مجھ کو
ہیں کئی دوست نما دُشمن احباب مِرے
تیرگی سے چلے آتے ہیں ڈرانے مجھ کو
ان سے ملنے کی تمنا بھی شگفتہ کو نہیں
پھر بھی آ جاتے ہیں کچھ لوگ ستانے مجھ کو
شگفتہ شفیق
No comments:
Post a Comment