کتنا چلے مسافر صدمات کے سفر میں
کب تک دِیا جلے گا برسات کے سفر میں
تِیرہ شبی مقدر کچھ اس طرح بھی ٹھہرا
تم نے بھی ساتھ چھوڑا اس رات کے سفر میں
ملتے ہیں آج سارے بدلے ہوئے جہاں میں
دنیا بدل گئی ہے حالات کے سفر میں
آغاز ایک سے تھا منزل تھی پانچ، لیکن
حاصل ہوا ہے چھ بھی اب سات کے سفر میں
چین و قرار کے بھی لمحات دلنشیں تھے
غم بھی ملے وفا کی سوغات کے سفر میں
بھُولے نہیں مجھے تو اب تک وہ کانپتے سے
لب ہائے دلربا کے اس بات کے سفر میں
شہزاد کوئی پوچھے کہئے حیات کیا ہے
کہہ دیجئے ہیں صدیاں، لمحات کے سفر میں
شہزاد حیدر
No comments:
Post a Comment