ہم اہلِ عزم اگر دل سے جستجو کرتے
تو اور منزلِ جاناں کو سرخرو کرتے
نہ دسترس میں بہاریں، نہ دل ہی قابو میں
غریبِ شہر کہاں تک جگر لہو کرتے
کسے خبر ہے کہ دل کے کنول کھلیں نہ کھلیں
کٹی ہے عمر بہاروں کی آرزو کرتے
نہ آ سکے تھے یہ حالات کا تقاضا تھا
جو آ گئے تھے تو پھر کھل کے گفتگو کرتے
یہ فیصلہ تو کیا دل نے بار بار مگر
اک آرزو ہی رہی، ترکِ آرزو کرتے
سکونِ سینۂ طوفاں مجیب کیا شئے ہے
یہ جانئے تو نہ ساحل کی آرزو کرتے
مجیب خیر آبادی
No comments:
Post a Comment