ندی کے دل فریب بہاؤ میں آ گئے
ہم سادہ لوگ تھے، تِرے داؤ میں آ گئے
دو چار دن کا ہجر گزارا ہے میں نے بھی
دو چار دن بھی ذہنی تناؤ میں آ گئے
وہ چاہتے نہیں تھے پرندوں کو بھیجنا
آندھی چلی تو پیڑ دباؤ میں آ گئے
چھوڑا اسے بھی ہم نے جسے چھوڑنا نہ تھا
تیرے حضور کتنے جھکاؤ میں آ گئے
یہ عشق جان لیوا ہے یہ جان کر بھی ہم
خود چل کے اس بھڑکتے الاؤ میں آ گئے
آیا تھا بے خیالی میں ہونٹوں پہ تیرا نام
موسم، ہوائیں، رنگ بھی چاؤ میں آ گئے
اب جس جگہ پہ آپ میسر نہیں ہمیں
ہم زندگی کے ایسے پڑاؤ میں آ گئے
اوروں نے تیرے حسن کا جب تذکرہ کیا
ہم خوش مزاج لوگ بھی تاؤ میں آ گئے
تم دوست ہو کے جھوٹ بہت بولنے لگے
کیا تم بھی ووٹ لینے چناؤ میں آ گئے؟
اپنے لیے کسی کا خسارہ نہیں کیا
ہم وہ نہیں جو دل کے دباؤ میں آ گئے
یہ سوچ کر کہ ہم میں کہیں جنگ چھڑ نہ جائے
دونوں طرف کے لوگ کھچاؤ میں آ گئے
میں نے قمر جو خواب میں دیکھے پرانے لوگ
آنسو اُمڈ کے آنکھ کی ناؤ میں آ گئے
قمر ریاض
No comments:
Post a Comment