Wednesday, 31 March 2021

سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا

 سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا

اب کوئی خواب نہیں نیند اُڑانے والا

یہ وہ صحرا ہے سمجھائے نہ اگر تو رستہ

خاک ہو جائے یہاں خاک اُڑانے والا

کیا کرے آنکھ جو پتھرانے کی خواہش نہ کرے

خواب ہو جائے اگر خواب دکھانے والا

یاد آتا ہے کہ میں خود سے یہیں بچھڑا تھا

یہی رستہ ہے تِرے شہر کو جانے والا

اے ہوا اس سے یہ کہنا کہ سلامت ہے ابھی

تیرے پھولوں کو کتابوں میں چھپانے والا

زندگی اپنی اندھیروں میں بسر کرتا ہے

تیرے آنچل کو ستاروں سے سجانے والا

سبھی اپنے نظر آتے ہیں بظاہر لیکن

رُوٹھنے والا ہے کوئی نہ منانے والا

لے گئیں دور بہت دور ہوائیں جس کو

وہی بادل تھا مری پیاس بجھانے والا​


اقبال اشہر

اقبال اشعر

No comments:

Post a Comment