Tuesday, 30 March 2021

رہتے ہیں کہیں اور مکاں اور کہیں ہے

 رہتے ہیں کہیں اور مکاں اور کہیں ہے

ہم مست الستوں کا جہاں اور کہیں ہے

ہم لوگ بہت دُور تلک بکھرے ہوئے ہیں

دل اپنا کہیں اور ہے جاں اور کہیں ہے

اس بار تو دشمن بھی اناڑی ہے بلا کا

ہے زخم کہیں اور نشاں اور کہیں ہے

ہم اس لیے بھی شہر سے باہر نہیں جاتے

جو لطف یہاں پر ہے کہاں اور کہیں ہے

مطلب کہ غلط سمت مِرا سارا سفر تھا

رکھا تھا کہیں پاؤں نشاں اور کہیں ہے

یاروں نے لگائی ہے بہت سوچ سمجھ کر

ہے آگ کہیں اور دھواں اور کہیں ہے


اختر ملک

No comments:

Post a Comment