وجد آور تھا تِرا جلوہ نما ہو جانا
روح فرسا ہے مگر مل کے جُدا ہو جانا
غمزہ و ناز و ادا یاد ہے تیرا جس سے
دل کا میرے ہدفِ تیرِ قضا ہو جانا
یاد ہے اب بھی وہ شمعِ رخِ زیبا تیری
مثلِ پروانہ مِرا اس پہ فدا ہو جانا
دیکھ کر جلوہ گہِ ناز میں مجھ کو اپنی
غُنچۂ گُل کی طرح تیرا وہ وا ہوجانا
عکس آئینے میں اُلٹا نظر آتا ہے تجھے
بدگمانی کا نتیجہ ہے خفا ہو جانا
باعثِ عز و شرف حُسنِ عمل ہے تیرا
ابنِ آدم کے لیے عقدہ کشا ہو جانا
رکھنا ہر حال میں تم اپنی انا پر قابو
جادۂ شوق میں راضی بہ رضا ہو جانا
میں سمجھنے سے ہوں قاصر یہ زمانے کی روش
’’اس قدر دشمن اربابِ وفا ہو جانا‘‘
ہے یہ غالب کی زمیں سوچ لے اس سے برقی
کیا یہ ممکن ہے تِرا عہدہ برآ ہو جانا
احمد علی برقی اعظمی
No comments:
Post a Comment