Wednesday 31 March 2021

رستے کتنا تھک جاتے ہیں

 رستے کتنا تھک جاتے ہیں

پھر بھی منزل تک جاتے ہیں

پتوں کو آرام نہیں ہے

کان ہوا کے پک جاتے ہیں

ایک طرف سے تم آتے ہو

چاروں اور دھڑک جاتے ہیں

ایک معطر یاد کے جھونکے

تازہ لمس چھڑک جاتے ہیں

قدموں کی عادت ہے یوں ہی

سوئے یار سرک جاتے ہیں

جانے دو لوگوں کی باتیں

کچھ بھی آ کر بک جاتے ہیں

رستہ گر بھی شرط نہیں ہے

رستے آپ بھٹک جاتے ہیں

آنکھیں چوکھٹ ہو جاتی ہیں

موسم بے دستک جاتے ہیں


اکرام بسرا

No comments:

Post a Comment