ہوائے شام! ذرا سا قیام ہو گا نا
چراغِ جاں کو جلاؤں، کلام ہو گا نا
بس ایک بات ہی پوچھی بچھڑنے والے نے
کبھی کہیں پہ ملے تو، سلام ہو گا نا
وہاں بہشت میں حور و کشور ہوں گے مگر
قرارِ جاں کا بھی کچھ انتظام ہو گا نا
کبھی کبھار ہی لیکن پکارتے ہیں تجھے
ہمارا چاہنے والوں میں نام ہو گا نا
اگر میں آدھا ادھورا ہی لوٹ آؤں تو
نگاہِ ناز! وہی اہتمام ہو گا نا
بس ایک بار محبت سے دیکھنا ہے ادھر
بتاؤ تم سے یہ چھوٹا سا کام ہو گا نا
افتخار شاہد
No comments:
Post a Comment