میں جاگی ہوئی ہوں کہ سوئی ہوئی ہوں
خیالوں کے صحرا میں کھوئی ہوئی ہوں
لبوں پر ہنسی، رخ پہ شبنم کے قطرے
میں کھل کر ہنسی ہوں کہ روئی ہوئی ہوں
نمو کس طرح ہو مری خواہشوں کی
کہ بنجر زمینوں میں بوئی ہوئی ہوں
وہ کیسے نکالے گا یادوں سے مجھ کو
میں حرفِ دعا میں سموئی ہوئی ہوں
صدفؔ سے گہر کردیا اُس نے مجھ کو
میں اس کی لڑی میں پروئی ہوئی ہوں
صغرا صدف
صغریٰ صدف
No comments:
Post a Comment