Monday 29 March 2021

وہ نماز عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے

 وہ نمازِ عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے

کہ قعود سے جو گزرے تو قیام تک نہ پہنچے

وہ حیات کیا کہ جس میں نہ خوشی کے ساتھ غم ہو

وہ سحر بھی کیا سحر ہے کہ جو شام تک نہ پہنچے

تِرے مے کدے کا ساقی یہ چلن بھی کیا چلن ہے

کہ جو ہاتھ تشنہ کاموں کے بھی جام تک نہ پہنچے

مِری نا مرادیوں کی یہی انتہا ہے شاید

تِری بارگاہ عالی میں سلام تک نہ پہنچے

اسے اپنی بد نصیبی نہ کہیں تو پھر کہیں کیا

کہ ہزار کوششوں پر رہِ عام تک نہ پہنچے

یہ مخاصمت کے جذبے یہ محاذ حاسدوں کے

مگر عمر بھر وہ ذوقی کے مقام تک نہ پہنچے


ایوب ذوقی

No comments:

Post a Comment