کھوکھلے برتن کے ہونٹ
صدا کے کھوکھلے بت پر
وہ اپنی انگلیاں گھستے رہیں گے
اندھیرے نرخرے سے
بس ہوا کی رفت و آمد کا نشاں
معلوم ہوتا ہے
زباں پر سبز دھبے پڑتے جائیں گے
چمکتے سبز دھبوں میں ٹھٹھرتے آئینے نیلی دعاؤں کے
کوئی یہ ان سے کہہ دو
کہ آوازیں کھڑکنے کے سوا یا
دھڑدھڑانے شور اٹھنے کے سوا
تازہ نہیں ہوتیں
صدا کا دیوتا
اپنے پرندے لے کے واپس جا چکا ہے
اسلم عمادی
No comments:
Post a Comment