Tuesday 30 March 2021

صدا کے کھوکھلے بت پر وہ اپنی انگلیاں گھستے

 کھوکھلے برتن کے ہونٹ


صدا کے کھوکھلے بت پر

وہ اپنی انگلیاں گھستے رہیں گے

اندھیرے نرخرے سے

بس ہوا کی رفت و آمد کا نشاں

معلوم ہوتا ہے

زباں پر سبز دھبے پڑتے جائیں گے

چمکتے سبز دھبوں میں ٹھٹھرتے آئینے نیلی دعاؤں کے

کوئی یہ ان سے کہہ دو

کہ آوازیں کھڑکنے کے سوا یا

دھڑدھڑانے شور اٹھنے کے سوا

تازہ نہیں ہوتیں

صدا کا دیوتا

اپنے پرندے لے کے واپس جا چکا ہے


اسلم عمادی

No comments:

Post a Comment