دل کو بچا کے لائے تھے سارے جہاں سے ہم
آخر میں چوٹ کھا گئے اک مہرباں سے ہم
بے فکریوں کا راج ہو رسہ کشی کے ساتھ
وہ مدرسہ حیات کا لائیں کہاں سے ہم
اب گرد بھی ہماری نہ پائیں گے قافلے
آگے نکل گئے ہیں بہت کارواں سے ہم
اپنا شمار ہی نہیں پھولوں میں باغ کے
ایسے میں کیا امید کریں باغباں سے ہم
جامی وطن میں اپنے مسافر تھی زندگی
لندن میں بِن بلائے ہوئے میہماں سے ہم
جامی ردولوی
No comments:
Post a Comment