پائے طلب کی منزل اب تک وہی گلی ہے
آغاز بھی یہی تھا انجام بھی یہی ہے
جس داستان غم کا عنوان روشنی ہے
ہر لفظ کی سیاہی خود منہ سے بولتی ہے
ہر لغزشِ بشر پر تنقید کرنے والو
تم یہ بھُلا چکے ہو انسان آدمی ہے
یہ سازشِ تغیر ہے کتنی جان لیوا
مجھ کو جگا کے میری تقدیر سو گئی ہے
ہاں میرے واسطے ہے تخصیص کا یہ پہلو
دنیا سمجھ رہی ہے انداز بے رخی ہے
ممکن نہیں کہ دامن بے داغ ہو کسی کا
سچ پوچھئے تو دنیا کاجل کی کوٹھری ہے
تابندہ ہر نفس ہے امید کی بدولت
محرابِ زندگی میں اک شمع جل رہی ہے
دیکھے تو کوئی شانِ سحرِ نگاہِ ساقی
ساغر میں کھِنچ کے روحِ میخانہ آ گئی ہے
کب تک یہ خوابِ غفلت جاگو عروج جاگو
اب دھوپ بڑھتے بڑھتے سر پر ہی آ گئی ہے
عروج زیدی بدایونی
No comments:
Post a Comment