یہ زلف جو بکھری ہے سنور جائے تو اچھا
ہم پہ جو گُزرنی ہے گُزر جائے تو اچھا
آئے نا کہیں حسن کے دامن پہ کوئی آنچ
الزامِ جنوں، عشق کے سر جائے تو اچھا
ڈر ہے کہیں گُلشن کو یہ پامال نا کر دے
آندھی جو چلی ہے وہ گُزر جائے تو اچھا
سُلجھاتے رہے گیسُوئے جاناں کو بہت ہم
اب کاکُلِ دوراں بھی سنور جائے تو اچھا
برپا ہے تصور میں شبِ وصل کا منظر
اب وقت زرا تُو بھی ٹہر جائے تو اچھا
حسن چشتی
No comments:
Post a Comment