Saturday 27 March 2021

دل ملا دل کا مدعا نہ ملا

 دل ملا دل کا مدعا نہ ملا

جی لیے جینے کا مزا نہ ملا

بندۂ زر تو ہر قدم پہ ملے

ایک بھی بندۂ خدا نہ ملا

کوئی شکوہ نہیں مجھے ان سے

دل ہی تو ہے ملا ملا نہ ملا

بے وفا نے بنا دیا یہ حال

وہ تو کہئے کہ با وفا نہ ملا

کچھ ملا ہو تو بیٹھ کر جوڑیں

کیا ملا ہم کو اور کیا نہ ملا

بخدا کچھ بھی لطف جینے میں

لذتِ درد کے سوا نہ ملا

سعیٔ ناکام کا ستم یہ ہے

نکتہ چینوں کو اک بہانہ ملا

مضمحل ہو گئیں صلاحیتیں

جب زمانے سے حوصلا نہ ملا

اجنبی پوچھتے ہیں جامی کو

ہم صفیروں سے آسرا نہ ملا


جامی ردولوی

No comments:

Post a Comment