پھولوں کی رُت ہے ٹھنڈی ہوائیں
اب ان کی مرضی آئیں نہ آئیں
ان کی جفا، یا اپنی وفائیں
کیا یاد رکھیں کیا بھول جائیں
پھولوں میں رہ کر پھولوں میں بس کر
کانٹوں سے کیسے دامن بچائیں
اتنا بتا دے غم دینے والے
آنسو بہائیں، یا مسکرائیں
رُودادِ اُلفت کر لیں مکمل
کچھ تم سُناؤ کچھ ہم سنائیں
ساحل بھی اپنا طُوفاں بھی اپنا
اب پار اُتریں یا ڈُوب جائیں
بھُولی ہوئی بات اک یاد آئی
لیکن سعید اب کس کو سنائیں
سعید شہیدی
No comments:
Post a Comment