Sunday, 28 March 2021

اپنے حصے میں کبھی سود و زیاں کرتے ہوئے

 اپنے حصے میں کبھی سُود و زیاں کرتے ہوئے

روز پیتا ہوں غمِ دل کو دَواں کرتے ہوئے

اب وہیں آتی ہے وہ، پھُول پُرانے لے کر

اس نے دیکھا تھا مجھے بَین جہاں کرتے ہوئے

اب یہ لگتا ہے وقت ہی زیاں کیا ہم نے

اس کی قُربت میں کٹے لمحے جمع کرتے ہوئے

اس کے موضوع سے جڑی کوئی یاد ہے تو نہیں

جانے کیوں آنکھ ٹپکتی ہے بیاں کرتے ہوئے

کل اُتاری ہے وہ غزل جو کبھی سوچی تھی

اسی کمرے میں سگرٹوں کا دھواں کرتے ہوئے

یہ وہ دیوانے ہیں جن کو ہے اذیت لذت

ہم نے دیکھا ہے انہیں حشر رواں کرتے ہوئے

یہ کچھ لمحات خدا کے جہاں لے جائیں گے

ہم نے پائے ہیں جو حسابِ جہاں کرتے ہوئے

آپ ہو جاتے ہیں شاہ جی غمِ دل سے نالاں

اپنے لفظوں میں دفن ارض و سما کرتے ہوئے


علی ساحل

No comments:

Post a Comment