درِ شہی سے درِ گدائی پہ آ گیا ہوں
میں نرم بستر سے چارپائی پہ آ گیا ہوں
بدن کی ساری تمازتیں ماند پڑ رہی ہیں
وہ بے بسی ہے کہ پارسائی پہ آ گیا ہوں
نہیں ہے چہرے کا حال پڑھنے کی خُو کسی میں
سکوت توڑا ہے لب کشائی پہ آ گیا ہوں
حصولِ گنجِ عطائے غیبی کے واسطے اب
صفاتِ ربّی کی جبہ سائی پہ آ گیا ہوں
فتور مجھ میں نہیں ہے کوئی سبب تو ہو گا
دُعائیں دیتا ہوا دُہائی پہ آ گیا ہوں
علی میں سبزے کو روندنے کی سزا کے باعث
برہنہ سر سے برہنہ پائی پہ آ گیا ہوں
علی مزمل
No comments:
Post a Comment