Saturday, 27 March 2021

یہاں سے اب کہیں لے چل خیال یار مجھے

 یہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے

چمن میں راس نہ آئے گی یہ بہار مجھے

تِری لطیف نگاہوں کی خاص جنبش نے

بنا دیا تِری فطرت کا رازدار مجھے

مِری حیات کا انجام اور کچھ ہوتا

جو آپ کہتے کبھی اپنا جاں نثار مجھے

بدل دیا ہے نگاہوں سے رُخ زمانے کا

کبھی رہا ہے زمانے پہ اختیار مجھے

میں جب چلا ہوں بہ ایں ذوقِ بندگی اے دوست

قدم قدم پہ ملے آستاں ہزار مجھے

یہ حادثات جو ہیں اضطراب کا پیغام

یہ حادثات ہی آئیں گے سازگار مجھے

عزیز اہلِ چمن کی شکایتیں بے سود

فریب دے گئی رنگینئ بہار مجھے


عزیز وارثی

No comments:

Post a Comment