ہر وقت یہ احساس دلانے کا نہیں میں
تیرا ہوں فقط، سارے زمانے کا نہیں میں
مدت سے مِرے سینے میں اک راز ہے پنہاں
یہ راز مگر سب کو بتانے کا نہیں میں
دریا تو ہوں لیکن مِرے اندر ہے وہ وُسعت
کُوزے میں کسی طور سمانے کا نہیں میں
اس بار کوئی گُل میں کھِلاؤں گا یقیناً
صحرا میں فقط خاک اُڑانے کا نہیں میں
اس بھیڑ میں پہچان مِری سب سے جُدا ہے
شیشہ ہوں مگر آئینہ خانے کا نہیں میں
لگتا ہے وہ پھر کوئی نئی چال چلے گا
اس بار مگر جال میں آنے کا نہیں میں
اب ڈُوبنا چاہے جو کوئی شوق سے ڈُوبے
ہر ڈُوبنے والے کو بچانے کا نہیں میں
خواجہ جاوید اختر
No comments:
Post a Comment