Saturday, 27 March 2021

ادھڑے ہیں زخم اس طرح کہ سل نہیں رہے

 اُدھڑے ہیں زخم اس طرح کہ سِل نہیں رہے

اور حوصلے ہیں جو ہمیں اب مل نہیں رہے

پھیلی ہوئی ہے چارسُو خوشبو، سو حیف ہے

آنگن میں گُل ہمارے ہی کیوں کِھل نہیں رہے

جُھریاں پڑی تو تُم ہمیں اب دیکھتے بھی نئیں

لب وہ نہیں رہے؟ یا وہ تِل نہیں رہے؟

گھر میں قحط کے بعد تھی وحشت براجمان

کچے صحن میں چیونٹیوں کے بِل نہیں رہے

مر جائیے کہ ہو سکے دفنائے جائیں اب

پھر کیا پتا؟ یہ رسم ہو اور گِل نہیں رہے

وہ بھی بضد ہیں ہم ہی منائیں انہیں، مگر

اپنی جگہ سے ہم بھی ذرا ہِل نہیں رہے

تڑپیں کسی کے دُکھ پر روئیں تو بے شمار

کاشف کسی کے پاس بھی وہ دل نہیں رہے


کاشف رانا

No comments:

Post a Comment