Sunday, 28 March 2021

بلائیں لوٹتی ہیں جب کہیں سے

بلائیں لَوٹتی ہیں جب کہیں سے

تو بسم اللہ ہوتی ہے ہمیں سے

ابھی سے چاک ہوتے جا رہے ہیں

کہیں سے جیب اور دامن کہیں سے

جنوں کا ہے یہی عالم تو کب تک

گریباں کا تعلق آستیں سے

خوشی میں بھی وہ اک کیفیتِ غم

نہیں جاتی دلِ اندوہ گیں سے

گرفتارِ بلا ہو کر یہ دیکھا

بدل جاتی ہے اک دنیا یہیں سے

غرورِ آسماں یہ دیکھنا ہے

کہاں تک پست ہوتا ہے زمیں سے

ہمیں حیرت دکھانا ہے کسی کو

مٹا کر داغِ ناکامی جبیں سے


حیرت شملوی

No comments:

Post a Comment