آج ان کے دامن پر اشک میرے ڈھلتے ہیں
غم کے تیز رو دھارے راستے بدلتے ہیں
آپ کے سہارے کی فکر ہو گی اوروں کو
ہم تو ٹھوکریں کھا کر خود بخود سنبھلتے ہیں
وقت بھی ہے میں بھی ہوں فیصلہ یہ کر لیجے
کس کے ساتھ چلنا تھا، کس کے ساتھ چلتے ہیں
ایسی بے رُخی بھی کیا، اتنی بھی ہے کیا جلدی
ٹھہرو، قافلے والو! ہم بھی ساتھ چلتے ہیں
تیری مسکراہٹ کے ساتھ ہیں میری آنکھیں
صبح کے اُجالے میں دو چراغ جلتے ہیں
دیکھنے کے قابل ہیں لغزشیں وہاں میری
ہاتھ تھام کر میرا، وہ جہاں سنبھلتے ہیں
یہ غریب دل اُن کو کیسے اجنبی جانے
دور دور رہ کر جو ساتھ ساتھ چلتے ہیں
مے کشی سعید اپنی ہے کچھ ایسی معیاری
ہم بدل نہیں سکتے، مے کدے بدلتے ہیں
سعید شہیدی
No comments:
Post a Comment