Saturday 27 March 2021

برفباری کی رت

 برفباری کی رُت


یہیں تو کہیں پر

تمہارے لبوں نے

مِرے سرد ہونٹوں سے برفیلے ذرّے چُنے تھے

اسی پیڑ کی چھال پر ہاتھ رکھ کر

ہم اک دن کھڑے تھے

یہیں برفباری میں ہم لڑکھڑاتے ہوئے جا رہے تھے

مہک تازہ بوسوں کی سُر میں سمائے

ہم آغوشیِ جسم و جاں کے نشے میں

گئی برفباری کی رُت

اور پگھلتی ہوئی برف بھی بہہ گئی سب

یہاں کچھ نہیں اب

کہ ہر شے نئی ہے

ہٹا کر ردا برف کی، گھاس لہرا رہی ہے

ہری پتیوں کی گھنی ٹہنیوں میں

ہوا جب چلے تو

گئے موسموں سے گزرتی

ہماری ہنسی گونجتی ہے


فہمیدہ ریاض

No comments:

Post a Comment