Saturday 27 March 2021

مجھے ڈر ہے ہنستے ہنستے کہیں رو نہ دے زمانہ

 مجھے ڈر ہے ہنستے ہنستے کہیں رو نہ دے زمانہ

جو بدل بدل کے عنواں میں کہوں وہی فسانہ

یہ بہار، یہ گھٹائیں، یہ شباب کا زمانہ

مجھے اب تو دیجے ناصح! نہ صلاحِ مخلصانہ

جو ہو جذب جذبِ کامل، جو ہو شوقِ والہانہ

تو ہے بندگی کو لازم نہ جبیں نہ آستانہ

ہے مجھے ملال اس کا کہ بدل گئیں وہ نظریں

مجھے اس کا غم نہیں ہے کہ بدل گیا زمانہ

میں کب آیا جاؤں گا کب مجھے کچھ خبر نہیں ہے

میری ابتداء فسانہ، مِری انتہا فسانہ

مِرا حال دیکھتے ہی کی ہر اک نے مے سے توبہ

مِری لغزشوں کے صدقہ میں سنبھل گیا زمانہ

سرِ طُور کیوں میں جاؤں بھلا اس کے دیکھنے کو

وہ ہر ایک جا عیاں ہے، جو نظر ہو عارفانہ

کبھی ساتھ ساتھ چلنا نہ ہوا نصیب مجھ کو

کبھی بڑھ گیا میں آگے، کبھی بڑھ گیا زمانہ

ارے آپکی تو آنکھوں میں جھلک رہے ہیں آنسو

بس اب آپ سُن چکے اور میں سُنا چکا فسانہ

مِری ہر غزل میں پِنہاں مِری دل کی دھڑکنیں ہیں

مگر اے سعید! اس کو نہ سمجھ سکا زمانہ


سعید شہیدی

No comments:

Post a Comment