برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر
چھپر ادھر نہیں ہے ہمارے مکان پر
مسجد میں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیا
تنقید کر رہا تھا جو کل تک اذان پر
کاغذ کے بال و پر پہ بھروسہ نہ کیجئے
جانا اگر ہے آپ کو اونچی اڑان پر
اب تک رمق حیات کی پیدا نہ ہو سکی
کیا میں لہو چھڑکتا رہا ہوں چٹان پر
دو چار ہاتھ اڑ کے زمیں پر جو آ گئے
تنقید کر رہے ہیں ہماری اڑان پر
جہلِ خِرد نے توڑ دیں سب بندشیں شہود
ناسخ کا اب اجارہ نہیں ہے زبان پر
شہود عالم آفاقی
No comments:
Post a Comment