پسِ دیوار و در رکھا ہوا ہے
عجب حُسنِ نظر رکھا ہوا ہے
وہ خود رہتا ہے اونچے پربتوں پر
مجھے زیرِ نظر رکھا ہوا ہے
سمندر کی یہ فطرت ہے کہ اس نے
کناروں تک بھنور رکھا ہوا ہے
بکھر جائیں نہ چاہت میں زیادہ
جنوں کو باندھ کر رکھا ہوا ہے
مجھے اک آرزو نے اس جہاں میں
ابھی تک معتبر رکھا ہوا ہے
ہمارا نام شاید اُس نے، مانی
کسی کے نام پر رکھا ہوا ہے
عمرانہ مشتاق مانی
No comments:
Post a Comment