کہیں بھی جبر، کہیں زور ہے، نہیں ہے نا
کوئی صدا ہے، کوئی شور ہے، نہیں ہے نا
میں ناچتا ہوں تو اپنی رضا سے ناچتا ہوں
مِری کمرمیں کوئی ڈور ہے، نہیں ہے نا
کھلانے والے مجھے تھک گئے، شِکم نہ بھرا
مِری طرح کوئی غم خور ہے، نہیں ہے نا
لگے ہوئے ہیں سبھی قوم کی قیادت میں
کوئی لُٹیرا، کوئی چور ہے، نہیں ہے نا
ہری بھری مِرے دل کی فَضا تھی، جب تم تھے
اب اس چمن میں کوئی مور ہے، نہیں ہے نا
تمہی کہو کہ بچھڑنے کے بعد بھی جاناں
وہی ہے رات، وہی بھور ہے، نہیں ہے نا
تسلیم نیازی
No comments:
Post a Comment