Monday, 29 March 2021

زندگی چین سے بسر نہ ہوئی

زندگی چین سے بسر نہ ہوئی

کبھی قسمت ہی بہرہ ور نہ ہوئی

زندگی بیش و کم مگر نہ ہوئی

ایک پل بھی اِدھر اُدھر نہ ہوئی

سرکشوں کو یہاں فروغ کہاں

ظُلم کی شاخ بار ور نہ ہوئی

نالہ اپنا کوئی رسا نہ ہوا

کوئی بھی آہ پر اثر نہ ہوئی

دیکھیے روزِ حشر کیا ہو گا

عفو اپنی خطا اگر نہ ہوئی

جس جگہ ہے نہاں وہ پردہ نشیں

حیف اس جا مِری نظر نہ ہوئی

آمدِ مرگ سن کے ہنستا ہوں

ایک دن میری آنکھ تر نہ ہوئی

ہو گئے خود سیاہ بال سفید

شام کے بعد کب سحر نہ ہوئی

کیا جلا کوئی اس کی محفل میں

عود کی طرح بو اگر نہ ہوئی

کیا خبر ہم کہاں ہوئے برباد

کچھ ہماری ہمیں خبر نہ ہوئی

اسی حسرت میں ہو گئے معدوم

ہاتھ اپنا تِری کمر نہ ہوئی

اے شبِ وصل حیف تیری طرح

زندگی اپنی مختصر نہ ہوئی

عمر بھر دل کو اضطراب رہا

کبھی کم سوزشِ جگر نہ ہوئی

شبِ ہجراں! تِرا ہو منہ کالا

مر گئے ہم مگر سحر نہ ہوئی

اس طرح صبر! لے گئے وہ دل

کہ جگر کو بھی کچھ خبر نہ ہوئی


ابوالبقاء منشی ثناء احمد

صبر و عصر سہارنپوری

No comments:

Post a Comment