Monday 29 March 2021

اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا

 اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا

وہ وقت کی مثال تھا واپس نہ آ سکا

ہر اک کو اپنا حال سنانے سے فائدہ

میرا جو ہم خیال تھا واپس نہ آ سکا

شاید مِرے فراق میں گھر سے چلا تھا وہ

زخموں سے پائمال تھا واپس نہ آ سکا

شاید ہجومِ صدمۂ فرقت کے گھاؤ سے

وہ اس قدر نڈھال تھا، واپس نہ آ سکا

شاید میں اس کو دیکھ کے سب کو بھُلا ہی دوں

اس کو یہ احتمال تھا واپس نہ آ سکا

کتنے خیال رُوپ حقیقت کا پا گئے

جو مرکزِ خیال تھا واپس نہ آ سکا

مجھ کو مِرے وجود سے جو کر گیا جُدا

کیسا وہ با کمال تھا واپس نہ آ سکا

ہر دم رئیس وہ تو نظر کے ہے سامنے

تیرا تو یہ خیال تھا واپس نہ آ سکا 


رئیس وارثی

No comments:

Post a Comment