Monday, 29 March 2021

یہی کارن جدائی کا بنا تھا

 یہی کارن جدائی کا بنا تھا

مجھے وہ وقت سے پہلے ملا تھا

اسی نے زخم بھی اتنے دئیے تھے

جسے میں جس قدر اچھا لگا تھا

اداسی میرے پیچھے پڑ گئی تھی

مِرا دل تھا یا کوئی غم سرا تھا

مِری ماں دکھ میں مجھ کو دیکھتی تھی

میں چھوٹا تھا مگر سب سے بڑا تھا

محبت کا نہیں ہے علم، لیکن

میں ان ہاتھوں کو اکثر چُومتا تھا

ندی نے خُود کشی کی ٹھان لی تھی

مقابل پھر کوئی کچا گھڑا تھا

مِری چِپ سب کو کھائے جا رہی ہے

میں گھر میں سب سے زیادہ بولتا تھا

سوالِِ عشق پہ بولے کہ؛ ہاں ہے

جو پوچھا مجھ سے رُخ پھیرا، کہا؛ تھا

بھنور سے آخری سِسکی یہ ابھری

ہمارا ناخدا تھا باخدا تھا

جسے سب عقلِ کُل سمجھے ہوئے تھے

اسی کی عقل پہ پردہ پڑا تھا

صنم سجدے میں گِر کر رو پڑے تھے

وہی مارا گیا جس کا خدا تھا


وسیم حیدر جعفری

No comments:

Post a Comment