یہی کارن جدائی کا بنا تھا
مجھے وہ وقت سے پہلے ملا تھا
اسی نے زخم بھی اتنے دئیے تھے
جسے میں جس قدر اچھا لگا تھا
اداسی میرے پیچھے پڑ گئی تھی
مِرا دل تھا یا کوئی غم سرا تھا
مِری ماں دکھ میں مجھ کو دیکھتی تھی
میں چھوٹا تھا مگر سب سے بڑا تھا
محبت کا نہیں ہے علم، لیکن
میں ان ہاتھوں کو اکثر چُومتا تھا
ندی نے خُود کشی کی ٹھان لی تھی
مقابل پھر کوئی کچا گھڑا تھا
مِری چِپ سب کو کھائے جا رہی ہے
میں گھر میں سب سے زیادہ بولتا تھا
سوالِِ عشق پہ بولے کہ؛ ہاں ہے
جو پوچھا مجھ سے رُخ پھیرا، کہا؛ تھا
بھنور سے آخری سِسکی یہ ابھری
ہمارا ناخدا تھا باخدا تھا
جسے سب عقلِ کُل سمجھے ہوئے تھے
اسی کی عقل پہ پردہ پڑا تھا
صنم سجدے میں گِر کر رو پڑے تھے
وہی مارا گیا جس کا خدا تھا
وسیم حیدر جعفری
No comments:
Post a Comment