مجھ کو دہلیزِ شرارت پہ اتارا جائے
میرے بچپن سے مجھے کاش گزارا جائے
بعد لڑنے کے اسی پَل میں لگاتے تھے گلے
ان اداؤں پہ مجھے پھر سے اُبھارا جائے
اپنے بچپن کے وہی کھیل پُرانے دیکھوں
جب بھی سُولی سے کوئی لاشہ اُتارا جائے
اے مِری عمر ٹھہر، مِڑ، ذرا پیچھے کو چلیں
ماں کی بانہوں میں مجھے پھر سے سنوارا جائے
ماں کی ممتا نے ہمیں ایسے بچا رکھا تھا
کتنی ہی کر لیں شرارت نہیں مارا جائے
کتنی شفقت سے کیا کرتا تھا خواہش پوری
جیسے بابا مِری ہر ضد پہ نثارا جائے
آ پلٹ چلتے ہیں انجم اسی بچپن کی طرف
چھُپ کے آنچل کے تلے ماں کو پکارا جائے
سہیل انجم
No comments:
Post a Comment