اک پرانی شراب جیسا عشق
مجھ سے خانہ خراب جیسا عشق
میر کی ایک غزل سا دل افروز
اک مقدس کتاب جیسا عشق
ہے گُنہ بھی یہی عبادت بھی
عاقبت کے حساب جیسا عشق
کبھی صحرا کبھی سمندر ہے
کبھی گنگا کے آب جیسا عشق
سو دعاؤں کا مستقل احساس
بندگی کے ثواب جیسا عشق
آب زم زم ہے اس کو پی لیجے
ہے مقدس شراب جیسا عشق
مختصر بحر کی ہے میری غزل
اس غزل کے جواب جیسا عشق
کسی معشوق کے بدن کی مہک
ایک تازہ گُلاب جیسا عشق
جگدیش پرکاش
No comments:
Post a Comment