Monday 29 March 2021

آرزو کے ساحل سے موج بن کے کھیلوں گا

 آرزو کے ساحل سے موج بن کے کھیلوں گا

تیرے دل کے دریا میں جب کبھی میں اتروں گا

جب بہار آئے گی تیرے دل کے آنگن میں

میں تِرے خیالوں میں پھول بن کے مہکوں گا

رات جب جدائی کی روشنی کو ترسے گی

میں تِرے تصور میں چاند بن کے ابھروں گا

جب کبھی اکیلے میں یاد تیری آئے گی

درد کے سمندر میں ڈوب ڈوب جاؤں گا

گم کہیں نہ ہو جانا، شہر کے جھمیلوں میں

میں کہاں کہاں تم کو بھیڑ میں صدا دوں گا

دوریوں کے اندھیارے جب محیط دل ہوں گے

قربتوں کے سورج کی روشنی کو ترسوں گا

رشتۂ رفاقت کا توڑنا نہیں اچھا

تم بھی غور کر لینا اور میں بھی سوچوں گا


حفیظ شاہد

No comments:

Post a Comment