آرزو کے ساحل سے موج بن کے کھیلوں گا
تیرے دل کے دریا میں جب کبھی میں اتروں گا
جب بہار آئے گی تیرے دل کے آنگن میں
میں تِرے خیالوں میں پھول بن کے مہکوں گا
رات جب جدائی کی روشنی کو ترسے گی
میں تِرے تصور میں چاند بن کے ابھروں گا
جب کبھی اکیلے میں یاد تیری آئے گی
درد کے سمندر میں ڈوب ڈوب جاؤں گا
گم کہیں نہ ہو جانا، شہر کے جھمیلوں میں
میں کہاں کہاں تم کو بھیڑ میں صدا دوں گا
دوریوں کے اندھیارے جب محیط دل ہوں گے
قربتوں کے سورج کی روشنی کو ترسوں گا
رشتۂ رفاقت کا توڑنا نہیں اچھا
تم بھی غور کر لینا اور میں بھی سوچوں گا
حفیظ شاہد
No comments:
Post a Comment