موت ہم کو اگر نہیں آتی
زندگی راہ پر نہیں آتی
صبحِ محشر کا خوف ہے طاری
نیند یوں رات بھر نہیں آتی
ہر طرف وہ دکھائی دیتا ہے
اس کی صورت نظر نہیں آتی
اس کی خوشبو سے جو معطّر ہے
وہ ہوا اب اِدھر نہیں آتی
دور اتنا ہے وہ نظر اس کو
میری گردِ سفر نہیں آتی
آدمی سب کو دیکھتا ہے مگر
اپنی صورت نظر نہیں آتی
حادثہ آج کوئی ہو جاتا
یاد اس کی اگر نہیں آتی
متین امروہوی
No comments:
Post a Comment