Saturday, 27 March 2021

زخم کھانا ہی جب مقدر ہو

 زخم کھانا ہی جب مقدر ہو

پھر کوئی پھول ہو کہ پتھر ہو

میں ہوں خواب گراں کے نرغے میں

رات گزرے تو معرکہ سر ہو

پھر غنیموں سے بے خبر ہے سپاہ

پھر عقب سے نمودِ لشکر ہو

کیا عجب ہے کہ خود ہی مارا جاؤں

اور الزام بھی مِرے سر ہو

ہیں زمیں پر جو گرد باد سے ہم

یہ بھی شاید فلک کا چکر ہو

اس کو تعبیر ہم کریں کس سے

وہ جو حدِ بیاں سے باہر ہو

دیکھنا ہی جو شرط ٹھہری ہے

پھر تو آنکھوں میں کوئی منظر ہو


احمد محفوظ

No comments:

Post a Comment