Monday, 29 March 2021

جنون شوق کی راہوں میں جب اپنے قدم نکلے

 جنونِ شوق کی راہوں میں جب اپنے قدم نکلے

نگارِ حُسن کی زُلفوں کے سارے پیچ و خم نکلے

یہ بے نُوری مِرے گھر کے اُجالوں کی معاذ اللہ

اگر دیکھیں اندھیرے تو اندھیروں کا بھی دَم نکلے

اُبھارے جائیے جب تک نہ اُبھرے نقش کاغذ پر

تراشے جائیے جب تک نہ پتھر سے صنم نکلے

نہیں دیکھا تھا جب تک خود کو سمجھے تھے نجانے کیا

شعور عشق لے کر آئینہ خانے سے ہم نکلے

یہ حسرت ہے سجا لوں اپنے ہونٹوں پر ہنسی میں بھی

گھڑی بھر کو مِرے دل سے اگر احساسِ غم نکلے

فرازِ عرش تک کیسے پہنچتے وہ بھلا شاہد

فضائے طُور کی حد سے نہ آگے جو قدم نکلے


شاہد بھوپالی

No comments:

Post a Comment