Monday, 29 March 2021

جیت کر بازی الفت کو بھی ہارا جائے

 جیت کر بازئ الفت کو بھی ہارا جائے

اس طرح حسن کو شیشے میں اتارا جائے

اب تو حسرت ہے کہ برباد کیا ہے جس نے

اس کا دیوانہ مجھے کہہ کے پکارا جائے

آپ کے حسن کی توصیف سے مقصد ہے مِرا

نقشِ فطرت کو ذرا اور ابھارا جائے

تم ہی بتلاؤ کہ جب اپنے ہی بے گانے ہیں

دہر میں اپنا کِسے کہہ کے پکارا جائے

ذہنِ خوددار پہ یہ بار ہی ہو جاتا ہے

غیر کے سامنے دامن جو پسارا جائے

کتنی دشوار ہے پابندئ آئینِ وفا

آہ بھی لب پہ اگر آئے تو مارا جائے

شب تو کٹ جائے گی یادوں کے سہارے وصفی

فکر اس کی ہے کہ دن کیسے گزارا جائے


وصفی بہرائچی

No comments:

Post a Comment