Saturday, 27 March 2021

آج پھر وقت کوئی اپنی نشانی مانگے

 آج پھر وقت کوئی اپنی نشانی مانگے

بات بھولی ہوئی زخموں کی زبانی مانگے

جذبۂ شوق کہ وارفتۂ حسن ابہام

اور وہ شوخ کہ لفظوں کے معانی مانگے

عرق آلود ہیں یہ سوچ کے عارض گُل کے

صبحِ خورشید نہ شبنم کی جوانی مانگے

جانے کیوں شام ڈھلے ڈوبتے سورج کا سماں

دل سے پھر بھُولی ہوئی کوئی کہانی مانگے

وقت ہر گام پہ اک زخم نیا دیتا ہے

اور شاعر سے جہاں زمزمہ خوانی مانگے

دل کے تپتے ہوئے صحرا کا ہے رہرو پیارے

پھر تِری زلف سے اک شام سہانی مانگے


شکیل دسنوی

No comments:

Post a Comment