یاد تو آئے کئی چہرے ہر اک گام کے بعد
کوئی بھی نام کہاں آیا تِرے نام کے بعد
دشت و دریا میں کبھی گلشن و صحرا میں کبھی
میں رہا محو سفر اک تِرے پیغام کے بعد
گامزن راہِ جنوں پر ہیں تو پھر سوچنا کیا
کسی انجام سے پہلے کسی انجام کے بعد
دل کا ہر کام فقط اس کی نظر کرتی ہے
نام آتا ہے، مگر میرا ہر الزام کے بعد
میری بے تابئ دل میرا مقدر ٹھہری
شبِ آلام سے پہلے شبِ آلام کے بعد
کام لیتا ہے مجھی سے وہ مصیبت میں سدا
بھُول جاتا ہے مگر مجھ کو مِرے کام کے بعد
بارہا اس نے مِرا نام مٹایا انجمؔ
رو پڑا پھر وہ ہر اک بار اسی کام کے بعد
مشتاق انجم
No comments:
Post a Comment