Saturday, 27 March 2021

نقاب تجلی اٹھانے لگے

 نقابِ تجلی اٹھانے لگے

مِرے دل کو وہ آزمانے لگے

تصور میں جب سے وہ آنے لگے

شبِ ہجر ہم مسکرانے لگے

خدا جانے ساقی نے کیا کر دیا ہے

جو ہم بے پیئے لڑکھڑانے لگے

اُدھر بجلیاں رقص کرنے لگیں

اِدھر ہم نشیمن بنانے لگے

میں جتنا انہیں بھُول جانے لگا

وہ اتنا مجھے یاد آنے لگے

مِرے نام سے برہمی تھی انہیں

جو دیکھا مجھے مسکرانے لگے

غمِ عشق تیری نوازش ہم

غمِ زندگی بھول جانے لگے

بلندی دیر و حرم جھک پڑی

سرِ شوق جب ہم جھکانے لگے

نکھرنے لگا جب سے آنکھوں میں غم

ستارے نئے جھلملانے لگے

جنوں کا خِرد نام لے کر بڑھی

کبھی تو قدم ڈگمگانے لگے

بیاباں میں رنگ و چمن آ گیا

مِرے اشک خون رنگ لانے لگے

سمجھتے تھے جو خود کو وطن شناس

کنارے پہ وہ ڈوب جانے لگے

میرے دل کو اک آسرا مل گیا

وہ بزمی مجھے یاد آنے لگے


بزمی احمد

No comments:

Post a Comment